۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 374852
2 دسمبر 2021 - 09:32
بچے اور معاشرہ

حوزہ/ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم نماز پڑھو جب ہم نماز پڑھیں گے بچہ دیکھ کر خود بخود نماز پڑھے گا ہمیں چاہیے ہم اپنے کردار کو اچھا بنائیں کیونکہ بچہ سنتا کم ہے دیکھتا زیادہ ہے ہمارا کام عمل و کردار پیش کرنا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

جمع و ترتیب: سیدہ نازیہ علی نقوی

استاد: حجۃ الاسلام والمسلمین علی سرور زید عزہ

ہمیں اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کے لیے اور امام زمانہ کے لیےمفید ثابت ہوں آج کی یہ جدیددنیا یہ کہہ رہی ہے کہ بچہ ایک پودے کی مانند ہے بچہ ایک پھول کی مانند ہے اور والدین کی حیثیت اور اساتذہ کی حیثیت ایک باغبان کے جیسی ہے، باغبان کا کام یہ ہے کہ اسکو دنیا کی مشکلات سے بچانا سردی اور گرمی سے بچانا اور جو ان کی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنا، تاکہ پودہ خود بڑا ہوسکے پھلدار ہوسکے پھول دار ہوسکے ثمر دے سکے۔

والدین کا کام یہ نہیں ہے کہ زبردستی پھول کو کھلوائیں،اگر ہم کلی کو زبردستی کھلانے کی کوشش کریں تو اس پھول کی پتیاں بکھر جائیں گی اور اس میں ترقی نہیں ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں کے لیے ایسے مواقع فراہم کریں جو ان کی صلاحتیں ہیں، وہ شکوفا ہوسکیں ثمر آور ہوسکیں اور وہ معاشرے میں رشد کرسکیں، یہ ہمارا اور بچوں کا رابطہ ہے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بچوں میں استعداد اور صلاحیتیں کیا ہے انکی عمر کا خیال ہونا چاہیے، اپنے بچے کی تربیت ہمیں بچپن سے ہی کرنا ہے۔

اس بچے کی عمر کا خیال رکھتے ہوئے کہ اس بچے کی عمر کیا ہے

مرحلہ: 1۔ عادتوں کا ۔ 2۔ تربیت کا ۔ 3۔ ادب اور سلیقے کا۔

عادت بچوں میں تمرین و تکرار کے ذریعہ ڈالی جاتی ہے، کیونکہ کہا جاتا عادتیں اچھی اور بری دونوں ہوتی ہیں ۔

افضل ترین عبادت یہ ہے کہ اپنی عادتوں پر غلبہ پایا جائے، جب تک بچہ ممیز نہیں ہوا ہے اس وقت تک ہمیں اس کی تربیت کرنی ہے، جب بچہ بڑا ہوجائے ہمیں اس کو زمانے سے آشنا کرنا ہے، ایسی تربیت کریں کہ جس معاشرے میں وہ جائے مفید ثابت ہو۔

تربیت: یعنی مثال کے طور پر ہم نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی تاکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اچھے سے زندگی گزارے۔

ادب : جس کو ہم سلیقہ کہتے ہیں، اگر زندگی کے دو دن رہ جائیں تو ایک دن ادب سکھانے میں لگائیں، کیونکہ دوسرے دن یہی ادب آپ کے کام آئے گا،روایت میں ملتا ہے ہماری پوری زندگی کا خلاصہ ادب ہے۔

عادت:عادت اور تربیت کا نتیجہ مختلف ہے لیکن ادب کا نتیجہ ہمیشہ اچھا آئے گا ، عادت اور تربیت کے ذریعہ ٹاپ نہیں ہوسکتے پاس ہوسکتے ہیں لیکن ادب کے ذریعہ ٹاپ ہوسکتے ہیں ، ہمیں اپنے بچوں کی تربیت لالچ سے نہیں کرنا چاہیے شوق اور محبت سے کرنا چاہیے، خوف کے ذریعہ اگر بچوں کی تربیت کریں گے وہ ذہنی طور پر غلام رہے گا، کبھی اپنی زندگی میں فیصلے نہیں کرپائے گا،اگر اپنے بچوں کو زبردستی سختی کرکے اچھی عادت کی طرف مجبور کریں گے تو اس کا منفی اثر ہوگا بچے پر، بچہ جلدی غلط قدم اٹھا سکتا ہے لالچ اور خوف بہترین چیز نہیں ہے بلکہ بہترین چیز شوق اور محبت ہے ، والدین اور اساتذہ کا کام شوق دلانا ہے ہمارے یہاں احساسات اور جذبات غالب رہتے ہیں والدین مشورہ دینے میں اپنے جذبات کو بھی شامل کرلیتے ہیں اگر والدین سے کوئی غلطی ہوجائے تو قبول کرنا ہوگا نہیں تو بچوں میں منفی اثرات پیدا ہوں گے بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ وہ آگے چل کر والدین کی بھی کمی کو پورا کردیں اس لیے اس بچے کا احترام کرنا ہوگا شکر گزاری کرنی ہوگی تاکہ وہ ہمارے بوجھ کو اٹھا سکے کمال تک پہنچائے بچہ آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بن سکتا ہے ۔

ایک عالم دین کا یہ فریضہ ہے کہ ان کو اپنی ذمہ داری فراموش نہیں کرنا چاہیے اگر آپ کے گھر آپ کا دشمن بھی آجائے تب بھی آپ کو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے، ہمیں چاہیے اپنا بچہ ہو یا دوسرے کا ہمیں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دینی ہوگی ، ایک شامی شخص نے امام حسن﷣ کو برا بھلا کہا لیکن آپ نے احسن طریقے سے جواب دیا ، امام حسن﷣ نے فرمایا جس کے دامن میں جو چیز ہوتی ہے وہی خیرات کرتا ہے اگر میں بھی اسے برا بھلا کہہ دیتا تو میرے اور سامنے والے کے درمیان کیا فرق رہ جاتا سب سے ضروری ہےکہ ہم اپنے بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کریں ، معلم کی تربیت ، والدین کی تربیت، مربی کی تربیت۔

ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تم نماز پڑھو جب ہم نماز پڑھیں گے بچہ دیکھ کر خود بخود نماز پڑھے گا ہمیں چاہیے ہم اپنے کردار کو اچھا بنائیں کیونکہ بچہ سنتا کم ہے دیکھتا زیادہ ہے ہمارا کام عمل و کردار پیش کرنا ہے۔

جو وعدہ کرو اسے پورا کرو اگر بچے میں کوئی خرابی نظر آرہی ہے تو یہ والدین کا نتیجہ ہے۔

استعداد شناسی: ہم نئی نسل میں استعداد کیسے منتقل کرتے ہیں تربیت الفاظ کے ذریعہ سے نہیں کرداد کے ذریعہ سے ہونا چاہیے، پہلے مرحلے میں ہم اپنی تربیت کریں،اگر ایک بچے نے اچھا کام کیا اور ایک بچے نے اچھا کام نہیں کیا تو ہمیں چاہیے کہ جس نے اچھا کام کیا اس کی تشویق کریں اس سے اس بچے کی خود بخود تنبیہ ہوجائے گی جس نے اچھا کام نہیں کی ، اس طرح سے ہمیں سختی کرنا ہے۔

کسی کے طولانی سجدوں کو نہ دیکھواس لیے کہ وہ عادتوں کی بنا پر ہوتا ہے بچے ہمارے اچھائی دیکھتے ہیں سچائی دیکھتے ہیں امانت داری دیکھتے ہیں بچے ہمارے الفاظ اتنے غور سے نہیں سنتے بلکہ ہمارے وعدے ہمارا کردار دیکھتے ہیں ہمارا دوسروں سے ملنے جلنے کا انداز دیکھتے ہیں اس کو باقاعدہ دیکھ رہےہوتے ہیں اس لیے بہت ہی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات و مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .